يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ خوب سننے والا، بڑا جاننے والا ہے
(1) بخاری نے عبداللہ بن الزبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ بنی تمیم کے کچھ سوار نبی کریم (ﷺ) کے پاس آئے، ابوبکر (رض) نے آپ (ﷺ) سے کہا کہ ان کا امیر قعقاع بن معبد کو بنائیے، اور عمر (رض) نے کہا : اقرع بن حابس کو بنائیے، ابوبکر (رض) نے کہا : تمہارا مقصد صرف میری مخالفت کرنی ہے۔ عمر (رض) نے کہا : میرا مقصد آپ کی مخالفت کرنی نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان بات بڑھ گئی اور دونوں کی آواز اونچی ہوگئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ عجلت میں آ کر نبی کریم (ﷺ) سے پہلے کؤی بات کہیں، یا کوئی کام کریں، یا اللہ اور اس کے رسول کا حکم جاننے سے پہلے کوئی اقدام کریں۔ حافظ ابن کثیر نے آیت کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانو ! آپ (ﷺ) سے پہلے کوئی کام کرنے میں جلدی نہ کرو، بلکہ تمام امور میں ان کی پیروی کرو ابن جریر نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اے وہ لوگو جنہوں نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے نبی (ﷺ) کی نبوت کا اقرار کیا ہے تم اپنے کسی جنگی یا دینی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے پہلے خود کوئی فیصلہ نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرلو عرب کہا کرتے ہیں ” فلان یتقدم بین یدی امامہ“ یعنی فلاں شخص امام سے پہلے امر اور نہی صادر کرنے لگتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنو ! اپنے تمام معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان معاملات میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ کوئی کام کیا جائے نہ کوئی بات کہی جائے اور نہ ان کے فیصلے سے پہلے کوئی فیصلہ کیا جائے۔