مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
محمد اللہ کے رسول (٢٠) ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے لئے بڑے سخت ہیں، اور آپس میں نہایت مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع اور سجدہ کرتے دیکھتے ہیں، وہ لوگ اللہ کی رضا اور اس کے فضل کی جستجو میں رہتے ہیں، سجدوں کے اثر سے ان کی نشانی کی پیشانیوں پر عیاں ہوتی ہے، تورات میں ان کی یہی مثال بیان کی گئی ہے، اور انجیل میں بھی ان کی یہی مثال بیان کی گئی ہے، اس کھیتی کی مانند جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے سہارا دیاتو وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، وہ کھیت اب کاشتکاروں کو خوش کر رہا ہے (اللہ نے ایسا اس لئے کیا) تاکہ ان مسلمانوں کے ذریعہ کافروں کو غضبناک بنائے، ان میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
(20) اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دی ہے کہ اسی نے نبی کریم (ﷺ) کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اسی کی مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور آپ کے لئے یہ گواہی دینا گویا آپ کے لئے ہر وصف جمیل کی گواہی ہے، اس لئے کہ اللہ کے رسول تمام اخلاق کریمہ اور صفات سے متصف ہوتے ہیں۔ پھر آپ کے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ وہ کافروں کے لئے ایسے ہی سخت ہوتے ہیں جیسے شیر اپنے شکار کے لئے سخت ہوتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے نہایت ہی رحم دل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی تعریف میں سورۃ المائدہ آیت (54) میں فرمایا ہے : ” وہ مومنوں کے لئے مانند ! بریشم نرم وتے ہیں اور کافروں کے لئے سخت ہوتے ہیں۔ “ مخلوق کے ساتھ ان کا معاملہ ایسا ہوتا ہے اور خالق کے ساتھ ان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کی جنت اور اس کی خوشنودی کے لئے کثرت سے نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کے ان نیک بندوں کی نشانی، کثرت سجود اور کثرت تہجد و نوافل کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر پائی جاتی ہے اور صحابہ کرام کی یہ نشانی انجیل اور تورات میں بھی پائی جاتی ہے۔ کے اعراب کے بارے میں دورائے ہے : 1۔ مبتدا ہے، اور ” کزرع“ اس کی خبر ہے اور معنی یہ ہے کہ انجیل میں ان کی مثال پودے کی ہے الخ 2۔ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ Ĭ پر معطوف ہے اور ” کزرع“ مبتدا محذوف کی خبر ہے، جس کی تقدیر ” ھم کزرع“ ہے اور معنی یہ ہے کہ صحابہ کی مثال اس پودے کی ہے جو زمین سے اپنی کونپل نکالتا ہے، پھر وہ بڑھ کر درخت بن جاتا ہے، پھر درخت موٹا ہوجاتا ہے، پھر وہ اپنے تنے پر کھڑا ہوجاتا ہے، جسے دیکھ کر کاشتکار خوش ہوتا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعہ صحابہ کرام کی حالت بیان کی ہے کہ ابتدا میں ان کی تعداد کم ہوگی، پھر ان کی تعداد بڑھتی جائے گی، اور وہ پودے کے مانند قوی سے قوی تر ہوتے جائیں گے اور ایسا اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی کثرت و قوت کے ذریعہ کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ کرے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے ان نیک بندوں سے جنہیں صحابہ رسول کہا جاتا ہے اور جن کے لئے اللہ نے ایمان اور علم صالح کی گواہی دی ہے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت عطا فرمائے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ امام مالک نے ” تاکہ اللہ ان کے ذریعہ کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ کرے“ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان روافض کی تکفیر کی ہے جو صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں اور کہا ہے کہ روافض صحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور جو صحابہ سے بغض رکھے گا وہ اس آیت کے مطابق کافر ہوگا امام مالک کی اس رائے سے علماء کی ایک جماعت نے اتفاق کیا ہے۔ وباللہ التوفیق