هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اسی نے مومنوں کے دلوں میں سکون و اطمینان (٣) اتار دیا تھا کہ ان کے ایمان سابق میں مزید ایمان کا اضافہ ہوجائے، اور آسمانوں اور زمین کی فوجیں اللہ ہی کی ہیں، اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے
(3) صلح کی شرطوں کی وجہ سے پہلے تو صحابہ کرام میں بڑا اضطراب پیدا ہوا۔ سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار عمر بن خطاب (رض) نے کیا، بالاخر تمام صحابہ نے نبی کریم (ﷺ) کی بات یہ سوچ کر مان لی کہ بہر حال اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے میں ہی ہر خیر ہے اس کا فوری نتیجہ یہ ہوا کہ تمام صحابہ کریم (ﷺ) کی طاعت کا جذبہ پیدا کر کے ان کی بے قراری کا خاتمہ کیا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ایمان میں اضافہ ہوا، جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی اور صحابہ اس پر ایمان لاتے تو ان کے ایمان کا درجہ بڑھ جاتا تھا امام بخاری اور دیگر ائمہ کرام نے اسی آیت کریمہ سے ایمان میں زیادتی اور نقصان پر استدلال کیا ہے۔ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ کہ آسمانوں اور زمین میں اس کے بہت سے لشکر ہیں، اس نے بہت سے فرشتے آسمانوں کے لئے اور بہت سے زمین کے لئے پیدا کئے ہیں، ان کے علاوہ کائنات کا ہر ذرہ اللہ کے تابع فرمان ہے، ان لشکروں کے ذریعہ جب چاہے کافروں کو نیست و نابود کر دے، لیکن اس نے جہاد و قتال کو اپنے مومن بندوں پر اپنی جانی سمجھی حکمتوں کی وجہ سے فرض کیا ہے، جنہیں وہی بہتر جانتا ہے۔