ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ ۖ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ
یہ برتاؤ ان کے ساتھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے ان لوگوں سے جنہوں نے اللہ کی نازل کردہ کتاب سے نفرت کی، کہا کہ ہم (اسلام اور محمد کے خلاف) بعض امور میں تمہاری اطاعت کرینگے، اور اللہ ان کی پوشیدہ باتوں کو خوب جانتا ہے
آیت (26) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس وقت وہ لوگ مشرکین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف خفیہ طور پر سازش کر رہے تھے، اللہ ان کی تمام باتوں کو سن رہا تھا، اس سے ان کا کوئی راز پوشیدہ نہیں تھا، او اب ان ساری باتوں سے اس نے اپنے رسول (ﷺ) اور مسلمانوں کو باخبر کردیا ہے، جیسا کہ سورۃ الحشر آیت (11) میں آیا ہے : ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ﴾ ” کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہاے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔“ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں اہل کتاب سے مراد بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہود ہیں جن کے ساتھ مل کر منافقین ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے رہتے تھے۔