أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
کیا جب تمہیں مصیبت (113) لاحق ہوئی، جس کے دوگنا تم (اپنے دشمن کو تکلیف پہنچا چکے تھے، تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی، آپ کہہ دیجئے کہ یہ تمہارے اپنے کیے کا نتیجہ ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے)
113۔ اب تک سیاق کلام غزوہ احد ہی سے متعلق ہے، مسلمان جب قتل، زخم اور شکست کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے تو ان کی زبان سے حیرت و استعجاب کے طور پر نکلا کہ ایسا کیسے ہوا؟ جبکہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کی راہ میں اس کے نبی کے ساتھ جہاد کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تمہیں مصیبت لاحق ہوئی، یعنی تمہارے ستر آدمی قتل ہوگئے (حالانکہ تم میدان بدر میں اپنے دشمن کو اس کے دوگنا زک پہنچا چکے تھے، یعنی ان کے ستر آدمیوں کو قتل کیا، اور ستر کو پابند سلاسل کیا) تو تم نے کہا کہ اللہ نے تو فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا، پھر ایسا کیوں ہوا؟ تو اللہ نے اپنے رسول سے کہا کہ آپ انہیں جواب دیجئے کہ یہ تمہارے کرتوت کا ہی نتیجہ ہے، تم نے مرکز کو چھوڑ کر اپنے نبی کے حکم کی مخالفت کی تو یہ دن دیکھنا پڑا، اس لیے کہ اللہ کا وعدہ تو اطاعت اور ثبات قدمی کے ساتھ مشروط تھا۔