وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں (٦) کی تلاوت کی جاتی تھی، تو حق (یعنی قرآن) کا انکار کرنے والوں نے، جب وہ حق ان کے پاس آچکا، کہنے لگے کہ یہ تو کھلا جادو ہے
(6) مشرکین مکہ کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب ان کے سامنے صریح اور واضح آیات قرآنیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ بجائے اس کے کہ ان میں غور و فکر کرتے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے، فوراً ان کا انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو کھلا جادو ہے، بلکہ کفر و سرکشی میں اور آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمد (ﷺ) خود گھڑتا ہے اور لوگوں کو اللہ کا کلام بتا کر سناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کی زبانی ان کے اس جھوٹ کی تردید یوں کی کہ میں تمہاری خاطر اللہ کے بارے میں ایسی افتراپردازی کیسے کرسکتا ہوں، جبکہ میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے اس کے عقاب کو ٹالنے کی ذرہ برابر بھی قدرت نہیں رکھتے ہو۔ قرآن کریم کے بارے میں تم جو کبھی کہتے ہو کہ وہ جادو ہے اور کبھی کہتے ہو کہ یہ تو محمد کا ہی کلام ہے، تو اللہ تعالیٰ تمہاری ان ہر زہ سرائیوں کو خوب جانتا ہے اور میرے اور تمہارے درمیان بحیثیت گواہ اللہ کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کا کلام ہے اور میں نے یہ بات تم تک پہنچا دی ہے اور یہ کہ تم لوگ کذاب اور مفتری ہو، کبھی اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہو اور کبھی میرے اور قرآن کریم کے بارے میں