قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اے میرے نبی ! آپ ایمان رکھنے والوں سے کہہ دیجیے کہ وہ ان لوگوں کو در گذر (٩) کریں جو اللہ کے عذاب کے دنوں کی امید نہیں رکھتے ہیں، تاکہ وہ ایک قوم کو ان کے کئے کا بدلہ دے
(9) مکی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ اگر انہیں مشرکین قریش کی طرف سے اذیت پہنچتی ہے تو عفو و درگزر سے کام لیں، اور انتقام لینے کی نہ سوچیں۔ دعوت الی اللہ کی راہ میں حکمت و دانائی کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اگر بالفرض مسلمانوں میں انتقام لینے کی طاقت بھی ہے تب بھی ایسا نہ کریں۔ ﴿ أَيَّامَ اللَّهِ﴾ کی تفسیر بعض نے ” اقوام گزشتہ پر عذاب الٰہی“ کیا ہے، بعض نے ” مطلق اللہ کا عذاب“ مراد لیا ہے، اور بعض نے اس سے مراد ” بعث بعد الموت“ لیا ہے۔ آیت میں مذکور عفو و درگزر کا صلہ یہ بتایا گیا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے اس نیک عمل کا اچھا بدلہ دے گا۔ ﴿ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴾ کا دوسرا مفہوم یہ کیا گیا ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ دے گا یعنی اے مومنو ! تم ان سے انتقام لینے کی نہ سوچو، ان کی ایذا رسانیوں کا بدلہ انہیں ہم دیں گے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ عفو و در گزر کا یہ حکم جہاد کے حکم کے ذریعہ منسوخ ہوگیا ہے۔