وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
اور اللہ نے تمہارے ساتھ اپنا وعدہ (104) سچ کر دکھایا، جب تم کافروں کو اللہ کے حکم سے (گاجر مولی کی طرح) کاٹ رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے کم ہمتی دکھلائی اور اپنے معاملہ میں خود آپس میں جھگڑنے لگے اور جب اللہ نے تمہیں تمہاری پسندیدہ چیز دکھلا دی تو اللہ کی نافرمانی کر بیٹھے، تم میں سے کوئی دنیا چاہتا تھا، اور تم میں سے کوئی آخرت چاہتا تھا، پھر اللہ نے تمہیں ان کافروں سے پھیر دیا، تاکہ تمہیں آزمائے، اور اللہ نے تمہیں معاف کردیا، اور اللہ کا مومنوں پر بڑا فضل و کرم تھا
104۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ واقعہ احد کے موقع سے بھی اللہ کا وعدہ سچا تھا کہ وہ اپنے مؤمن بندوں کی مدد کرتا ہے، اور کافروں پر انہیں غلبہ دیتا ہے، چنانچہ اس نے تمہیں تمہارے دشمنوں پر غلبہ دیا تھا، اور اگر تم اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہتے اور رسول کے حکم کی اتباع کرتے، تو اللہ کی نصرت آخرت تک تمہارے لیے باقی رہتی، لیکن جب تم نے روگردانی کی اور اپنے مرکز کو چھوڑ دیا، تو بطور عقاب اللہ کی نصرت تم سے چھن گئی، اور پاسا پلٹ گیا، (اس کی تفصیل آیت 121 میں گذر چکی ہے، وہاں دیکھ لیجیے) ” بعض نے دنیا کا ارادہ کیا“ یعنی مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعین کیے ہوئے مرکز کو چھوڑ دیا، اور’’ بعض نے آخرت کا ارادہ کیا“ یعنی شوق شہادت میں جنگ کرتے رہے، جیسا کہ انس بن نضر نے کیا کہ دشمنوں سے لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، پھر اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کا پیچھا کرنے سے روک دیا، تاکہ اس واقعہ کو مسلمانوں لیے امتحان و آزمائش کا سبب بنا دے، اور تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، اور اپنے گناہوں سے معافی مانگیں، اس کے بعد اللہ نے خبر دی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کردیا۔