وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ
اور جب ہم انسان کو اپنی نعمت سے نوازتے ہیں، تو وہ منہ پھیر لیتا ہے (٣٤) ہے، اور اینٹھنے لگتا ہے، اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ لمبی چوڑی دعا کرنے لگتا ہے
(34) اس آیت کریمہ میں بالعموم لوگوں کی یہ فطرت بیان کی گئی ہے کہ جب اللہ انہیں مال و اولاد اور صحت و عافیت سے نوازتا ہے تو اس کی یاد سے غافل ہوجاتے ہیں اور کبر و غرور میں مبتلا ہو کر طاعت و بندگی کی راہ سے منحرف ہوجاتے ہیں اور جب وہ نعمتیں ان سے چھن جاتی ہیں، تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتے ہیں، یعنی الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور مفہوم و معنی کم ہوتا ہے۔ سورۃ یونس آیت (12) میں آیا ہے : ﴿وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنَا إِلَى ضُرٍّ﴾ ” اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے، لیٹے ہوئے، بیٹھے ہوئے، کھڑے ہوئے، پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وہ ایسا ہوجاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لئے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ “