وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ
اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی قرآن (٢٩) بنا دیتے تو وہ کہتے کہ اس کی آیتوں کی وضاحت کیوں نہیں کردی گئی ہے، کیسی بات ہے کہ قرآن تو عجمی ہے اور رسول عربی ہے، آپ کہہ دیجیے کہ یہ قرآن باعث ہدایت و شفا ہے ان لوگوں کے لئے جو اہل ایمان ہیں، اور جو اہل ایمان نہیں ہیں، ان کے کانوں کے لئے یہ بہرا پن، اور ان کی آنکھوں کا اندھا پن ہے، ان لوگوں کو کسی بہت ہی دور کی جگہ سے پکارا جا رہا ہے
(29) کفارقریش کفر و عناد کی وجہ سے کہتے تھے کہ اگر واقعی محمد اللہ کا نبی ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہوتاتو یہ کسی عجمی زبان میں نازل ہوا ہوتا، تاکہ ہمیں یقین ہوجاتا کہ اسے سچ مچ اللہ نے ہی بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ویسا ہی ہوتا جیسا وہ کہہ رہے ہیں، تب بھی ان کے عناد اور سرکشی میں کمی نہ آتی اور کہتے کہ اس کی آیتوں کو اس زبان میں کیوں نہیں بیان کیا گیا ہے جسے ہم سمجھتے ہیں، یہ کون سا تک ہے کہ قرآن تو عجمی ہے اور رسول عربی ہے اور اس کے مخاطب عرب ہیں۔ یعنی چونکہ ان کا مقصد ایمان لانا نہیں ہے۔ اس لئے اللہ کی آیتیں جس طرح بھی ان کے پاس پہنچیں گی، وہ لوگ قبول نہیں کریں گے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے لئے باعث ہدایت اور دلوں کے امراض کا علاج ہے اور اہل کفر کے کان تو اس صدائے ایمانی کو سننے سے اور ان کی آنکھیں اس نور ہدایت سے مستفید ہونے سے قاصر ہیں، ان کافروں کی مثال تو اس آدمی کی ہے جسے بہت ہی دور سے پکارا جائے، اور وہ آواز اس تک نہ پہنچے، چونکہ کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر بھی مہر لگ گیا ہے، اس لئے قرآن کریم کی آیتوں سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔