ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص (یعنی غلام) کی مثال (٢٠) بیان کرتا ہے جس میں کئی جھگڑا لو آدمی شریک ہیں، اور ایک ایسے شخص کی جو خالص ایک آدمی کی ملکیت ہے، کیا دونوں حالات میں برابر ہو سکتے ہیں، ہر قسم کی تعریف صرف اللہ کے لئے ہے، بلکہ اکثر لوگ صحیح علم نہیں رکھتے ہیں
(20) یہ آیت کریمہ قرآن میں مذکور بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال ہے، تاکہ لوگ اس میں غور و فکر کر کے عبرت حاصل کریں، یہ مثال ایک مشرک اور ایک موحد کے درمیان فرق واضح کرنے کے لئے بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک ایسا غلام جس کے کئی آقاہوں، اور سبھی بد اخلاق اور بدسلوک ہوں اور وہ ہمیشہ حیران و پریشان رہتا ہو کہ کس کی بات مانے اور کس کی نافرمانی کرے اور کس طرح سمبھوں کو راضی رکھے، ایسا غلام اس غلام کے مانند نہیں ہوسکتا جس کا ایک ہی آقا ہو، اسی کے اشاروں پر عمل کرتا ہو اور اطمینان بھری زندگی گذارتا ہو۔ یہی حال مشرک و موحد کا ہے۔ مشرک مختلف معبودوں کے درمیان حیران و پریشان رہتا ہے اور موحد رب العالمین کی عبادت کرتا ہے اور اس کا دل سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ مشرک کی اسی حیرانی اور موحد کے اسی سکون و اطمینان کی طرف یوسف (علیہ السلام) نے اشارہ کیا تھا جب قرآن کی زبان میں انہوں نے جیل کے ساتھیوں سے کہا تھا :﴿ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾ ” بھانت بھانت کے بہت سارے معبود بہتر ہیں یا ایک اللہ جو صاحب قہر و جبروت ہے“ مفسر ابوالسعود لکھتے ہیں کہ ﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ﴾کے ذریعہ اوپر بیان کئے گئے مشرک و موحد کے درمیان فرق کی مزید توثیق کی گئی ہے اور موحد کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اسے جو نعمت توحید حاصل ہوئی ہے وہ محض اللہ کی توفیق سے حاصل ہوئی ہے، اور یہ اتنی بڑی عظیم نعمت ہے جس پر اللہ کا ہر دم شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شرک و توحید اور مشرک و موحد کا فرق ظاہر و واضح ہونے کے باوجود، مشرکین اسے نہیں سمجھ پاتے ہیں اور شرک و ضلالت کے بھنور میں ہچکولے کھاتے رہتے ہیں۔