سورة الزمر - آیت 7

إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اگر تم ناشکری (٦) کرو گے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، اور وہ اپنے بندوں کے لئے نا شکری کو پسند نہیں کرتا ہے، اور اگر تم شکر گذار بنو گے تو وہ تمہاری طرف سے اسے پسند کرے گا، اور روز قیامت کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تم سب کو تمہارے رب کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں تمہارے کئے کی خبردے گا، وہ بے شک سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو جاننے والا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(6) اللہ تعالیٰ اپنی تمام ملوقات سے بے نیاز ہے، سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اس لئے اگر تمام جن و انسان کفر کی راہ اختیار کرلیتے ہیں تو اس کا نقصان انہی کو ہوگا اللہ کی بے نیازی میں کوئی فرق نہیں آئے گا سورۃ ابراہیم آیت (8) میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی یہی بات یوں کہی ہے : ﴿إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾ ” اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے“ امام مسلم نے اپنی کتاب ” الصحیح“ میں حدیث قدسی روایت کی ہے کہ اے میرے بندو ! اگر تمہارا پہلا اور آخری شخص اور تمہارے جن و انس تم میں سے بدترین گناہگار کے مانند ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اللہ اپنی غایت رحمت کی وجہ سے اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں کرتا جو ان کی شقاوت و بدبختی کا سبب ہوتا ہے، وہ تو ان کے لئے یہ پسند کرتا ہے کہ قول و عمل کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرتے رہیں تاکہ انہیں اس کا اچھا بدلہ دے اور جنت ان کا مقام بنے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، ہر شخص صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہوگا اور اسی کا اسے بدلہ دیا جائے گا اور مرنے کے بعد ہر شخص کو بہرحال اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، جو اسے ان تمام اعمال کی خبر دے گا جو وہ دنیا میں کرتا رہا تھا، اس سے کوئی بات مخفی نہیں ہے، وہ تو دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کے اس جزو میں بہت بڑی دھمکی ہے کہ دنیا میں اگر کسی کا کردار اچھا نہیں ہے تو اسے اس کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔