يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ
اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین کا حکم (١٣) بنایا ہے، پس آپ لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کیجیے، اور خواہش نفس کی پیروی نہ کیجیے جو آپ کو اللہ کی راہ سے برگشتہ کر دے، جو لوگ اللہ کی راہ سے برگشتہ ہوجائیں گے ان کو اس وجہ سے سخت عذاب ہوگا کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا تھا
(13) اس آیت کریمہ کا تعلق گزشتہ آیت سے ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے داؤد سے کہا اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے تاکہ آپ لوگوں کو بھلائی کا حکم دیجیے اور برائی سے روکئے اور اپنے رب کی شریعت کو نافذ کیجیے پس آپ لوگوں کے درمیان اس عدل کے ساتھ فیصلہ کیجیے جس کا اللہ کی شریعت تقاضا کرتی ہے اور اپنے نفس کی پیروی نہ کیجیے کہ مال و جاہ یا دوستی یا رشتہ داری کی وجہ سے حق و عدل سے منحرف ہوجایئے، اگر ایسا کیجے گا تو آپ اللہ کی اس ڈگر سے دور ہوجائیے گا، جس پر چل کر قومیں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی حاصل کرتی ہیں اور جس سے انحراف حاکم و محکوم سب کی ہلاکت و بربادی کا سبب بنتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ اس دنیا میں اللہ کی راہ سے برگشتہ ہوجائیں گے، انہیں قیامت کے دن شدید عذاب دیا جائے گا، اس لئے کہ انہوں نے اللہ کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا اور ایمان و تقویٰ کے بجائے کفر و سرکشی کی زندگی اختیار کرلی تھی حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ آیت کریمہ حاکموں کے لئے اللہ کی جانب سے وصیت ہے کہ انہیں لوگوں کے درمیان اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے اور اس سے منحرف نہیں ہونا چاہئے، ورنہ اللہ کی شریعت سے برگشتہ مانے جائیں گے، اور جو اللہ کی شریعت سے برگشتہ ہوجائے گا اور اس کی ملاقات کو بھول جائے گا، اللہ نے اسے قیامت کے دن شدید عذاب کی دھمکی دی ہے۔