إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ
بے شک جن لوگوں نے کفر (66) کیا اور حالت کفر میں ہی مر گئے، ان کی طرف سے زمین بھر کر سونا بھی بطور فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا، ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا، اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا
جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور حالت کفر میں ہی مر گئے تو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ان کا انجام بتایا ہے، کہ اس دن کسی کے پاس کوئی مال نہ ہوگا، لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ کسی کے پاس مال و دولت ہو، تو چاہے وہ پوری زمین بھر کے بھی سونا دے کر اپنی جان جہنم کی آگ سے چھڑانا چاہے گا تو بچ نہ سکے گا، یعنی کوئی بھی چیز اسے اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گی۔ مسند احمد میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا، قیامت کے دن ایک جہنمی سے پوچھا جائے گا کہ اگر تم زمین کی ہر چیز کے مالک ہوتے تو کیا اسے دے کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ؟ وہ کہے گا ہاں، تو اللہ کہے گا کہ میں تو تم سے اس سے آسان چیز چاہی تھی، میں نے تم سے (جب تم اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھے) یہ عہد لیا تھا کہ تم میرے ساتھ شرک نہ کرو گے تو تم نے انکار کردیا۔ مسند احمد اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عبداللہ بن جدعان کے بارے میں پوچھا گیا، جو مہمانون کو کھانا کھلایا کرتا تھا، قیدیوں کو چھڑاتا تھا، اور مسکینوں کو کھانا دیتا تھا، کہ یہ نیکیاں اس کے کام آئیں گی؟ تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ نہیں، اس لیے کہ اس نے پوری زندگی میں ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب قیامت کے دن میرے گناہوں کو معاف کردینا۔