وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا (65) کہ میں زمین میں ایک نائب (٦٦) بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہ (اے اللہ) کیا تو اس میں ایسے آدمی کو نائب بنائے گا جو اس میں فساد (٦٧) پھیلائے گا اور خونریزی کرے گا، اور ہم تو تیری تسبیح اور حمد و ثنا میں لگے رہتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے رہتے ہیں۔ (اللہ نے) کہا جو میں جانتا (٦٨) تم نہیں جانتے
65: اس میں بنی آدم پر ایک طرح کے احسان کا ذکر ہے کہ اللہ نے انہیں پیدا کرنے سے قبل فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کیا اور ان کی فضیلت بیان کی۔ 66۔ یعنی ایک ایسی قوم کو پیدا کرنا چاہتا ہوں جس کی ایک نسل دوسری نسل کے بعد آتی رہے گی۔ 67: فرشتوں کی مراد اس سے یہ تھی کہ آدم کی ذریت میں ایسے لوگ ہوں گے جو زمین میں فساد پھیلائیں گے، اللہ نے شاید خاص طور پر انہیں بشری طبیعت کا علم دے دیا تھا، اور اس سوال سے ان کا مقصد تخلیق آدم کی حکمت جاننی تھی، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر اعتراض۔ 68: میں ان میں انبیاء و رسل پیدا کروں گا، ان میں صدیقین، شہداء، صالحین، عباد، زہاد، اولیاء وابرار، علماء واتقیاء اور اللہ سے خالص محبت کرنے والے پیدا ہوں گے۔