قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي ۖ وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ
آپ کہہ دیجیے کہ اگر میں گمراہ ہوں تو اس کا خمیازہ میں بھگتوں گا، اور اگر میں راہ راست پر گامزن ہوں تو یہ اس قرآن کی بدولت ہے، جسے میرا رب بذریعہ وحی مجھ تک بھیجتا ہے، وہ بے شک خوب سننے والا، بڑا قریب ہے
مشرکین آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ محمد اپنے باپ دادوں کا دین چھوڑ کر گمراہ ہوگیا، تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر میں اپنے نفس کا غلام بن کر گمراہ ہوگیا ہوں، تو اس کا وبال مجھ پر پڑے گا اور اگر میں نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کرلیا ہے اور راہ راست پر گامزن ہوگیا ہوں تو مجھ پر یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھے اس کی توفیق بخشی، اور وہ بڑا سننے والا اور بہت ہی قریب ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں مذکور آخری بات کہ مجھے تو دعوت الی اللہ کا اجر صرف اپنے رب سے چاہئے، تمام داعیان حق کے لئے عام ہے، اس لئے جب اللہ نے آپ (ﷺ) کو (عظیم المرتبت نبی ہونے کے باوجود) یہ حکم دیا کہ اپنے بارے میں ایسی بات کہیں تو دوسرے لوگ بدرجہ اولیٰ اس حکم میں داخل ہیں۔