فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
تو ان لوگوں نے کہا، اے ہمارے رب ! ہمارے سفروں کے درمیان دوری بڑھا دے اور انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، تو ہم نے انہیں قصہ پارینہ بنا دیا، اور ان کو بالکل تر بتر کردیا، بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے لئے صبر کرنے والا، اس کا شکر گذار ہے
لیکن انہیں یہ نعمتیں بھی راس نہیں آئیں اور امن و عافیت کی قدر کرنا بھول گئے اور کبرو غرور میں آ کر کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی سفر ہے کہ ہر تھوڑی مسافت کے بعد بستی پائی جاتی ہے، مزا تو جب آتا کہ چٹیل میدانوں، جنگلات اور پر خطر وادیوں سے گذر ہوتا اللہ تعالیٰ کو ان کا اترانا پسند نہیں آیا اور ان بستیوں کو خرابات میں بدل دیا اور ان کی تاریخ لوگوں کے لئے کہانیاں بن گئیں جنہیں دنیا والے سن کر حیرت کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ نے ان کے عیش و آرام کو سختی و تنگی میں اور ان کی جمعیت و وحدت کو انتشار و پریشانی میں بدل دیا، یہاں تک کہ وہ عربوں کے لئے ضرب المثل بن گئے کہ جب انہیں کسی قوم کے انتشار و افتراق کا حال بیان کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں : ایسا بکھر گئے جیسے قوم سبا کی جماعت بکھر گئی، ان میں سے اوس و خزرج والے یثرب (مدینۃ الرسول) غسان کے لوگ شام، ازدوالے عمان اور خزاعہ کے لوگ تہامہ پہنچ گئے اور اس طرح پوری قوم سباتتر بتر ہوگئی اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ ان ساری تفصیلات میں اللہ کے صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے بندوں کے لئے بہت ساری عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں۔