سورة الأحزاب - آیت 51

تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ اپنی بیویوں میں جسے چاہیے اپنے آپ سے الگ رکھئے (41) اور جسے چاہیے اپنے پاس جگہ دیجیے، اور جن کو الگ کردیا ہو، ان میں سے جسے چاہیے دوبارہ طلب کرلیجیے، آپ کے لئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے، اس برتاؤ سے امید کی جاتی ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی، اور غم نہ کریں گی اور آپ ان سب کو جو کچھ دیں گے اس سے خوش رہیں گی، اور (مسلمانو !) تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ خوب جانتا ہے، اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا بردبار ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(41) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کو بیویوں کے رکھنے، چھوڑنے اور ان کے درمیان باری کی تقسیم کے سلسلے میں پورا اختیار دے دیا تھا اور یہ سب کچھ آپ (ﷺ) کے لئے اللہ کی انتہائے محبت کی دلیل تھی آپ کو اجازت دے دی گئی تھی کہ اپنی بیویوں میں سے جس سے چاہیں بغیر طلاق کے علیحدگی اختیار کرلیں اور جس کے پاس چاہیں رات گذاریں اور مباشرت کریں۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے پہلے تمام بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرنی واجب تھی، اس کے بعد آپ کے لئے وجوب منسوخ ہوگیا اور آپ (ﷺ) کو اختیار حاصل ہوگیا کہ جس کے پاس چاہیں جائیں اور جسے چاہیں بغیر طلاق کے چھوڑ رکھیں چنانچہ عائشہ، حفصہ، ام سلمہ اور زینب کے درمیان باری تقسیم کردی اور سودہ، جویریہ، ام حبیبہ، میمونہ اور صفیہ کے پاس اگر کبھی چاہتے تو ان کے درمیان باری لگا کر جاتے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں صرف ان عورتوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو نبی کریم کے لئے بغیر مہرکے ہبہ کردیا تھا ان میں سے بعض کو آپ (ﷺ) نے چن لیا اور بعض کو چھوڑ دیا، پھر ان عورتوں نے دوسروں سے شادی نہیں کی اس قول کی تائید عائشہ (رض) کی اس حدیث سے ہوتی ہے جسے احمد اور بخاری نے روایت کی ہے کہ وہ ایسی عورتوں کو عار دلاتی تھیں، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی تو عائشہ نے آپ (ﷺ) سے کہا : میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہش کی تکمیل میں جلدی کرتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس آیت میں آپ (ﷺ) کو اختیار دیا گیا ہے کہ آپ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہیں طلاق دے دیں اور جسے چاہیں رکھیں۔ ان احکامات کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب آپ کی بیویوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ اختیارات آپ کو اللہ نے دیئے ہیں تو سب مطمئن ہوجائیں گیں اور جنہیں آپ نے چھوڑ رکھا ہے وہ غمگین نہیں ہوں گی اور آپ کی مرضی اور خواہش پر راضی ہوجائیں گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وہ تمہارے دلوں کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے تم اپنی بعض بیویوں کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہو اور بعض کی طرف کم، اسے یہ معلوم ہے اور اس نے بطور اعزاز و اکرام اپنے رسول (ﷺ) کو وہ اختیار دے دیا ہے جس کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔