مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
مومنوں میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان (٢٠) کو سچ کر دکھایا، پس ان میں سے بعض نے اپنی نذر پوری کردی، اور بعض وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کے موقف میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی ہے
(20) ان مومنین مخلصین نے اللہ تعالیٰ سے جس صبر و ثبات قدمی کا وعدہ کیا تھا، اس میں سچے ثابت ہوئے، انہوں نے رسول اکرم (ﷺ) کے ساتھ جہاد کیا، عمل صالح کیا اور گناہوں سے بچتے رہے مفسرین لکھتے ہیں کہ ان سے مراد یا تو وہ انصار مدینہ میں جنہوں نے بیعتہ العقبہ میں ہر حال میں رسول اللہ (ﷺ) کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا، یا وہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر انہیں رسول اللہ کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کا موقع ملا تو ثابت قدم رہیں گے اور راہ فرار نہیں اختیار کریں گے۔ چنانچہ ان میں سے بعض تو جنگ احد میں کام آگئے جیسے حمزہ مصعب بن عمیر اور انس بن النضر اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی اور جو بچ گئے جیسے عثمان بن عفان، طلحہ اور زبیر وغیرہ ہم وہ اللہ کی فتح و نصرت اور اس کی راہ میں شہادت کا انتظار کرتے رہے اور انہوں نے اپنے رب سے جو عہد و پیمان کیا تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی اور نہ ہی منافقوں کی طرح نقض عہد کیا، جس کی طرف اسی سورت کی آیت (15) میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ان منافقوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ میدان کار زار میں دشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھلائیں گے۔