وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور زمین میں جتنے درخت (٢٠) ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جائے اور اس کے بعد مزید سات سمندر اس کی مدد کریں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے، بے شک اللہ زبردست، بڑا صاحب حکمت ہے
(20) محمد بن اسحاق نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، علمائے یہود نے رسول اللہ (ﷺ) سے مدینہ میں پوچھا کہ اے محمد ! تمہارا یہ قول : ﴿وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے“ ہمارے بارے میں ہے یا تمہاری قوم کے بارے میں؟ تو آپ نے کہا : دونوں کے بارے میں تو انہوں نے کہا کیا تم اپنے قرآن میں نہیں پڑھتے ہو کہ ہمیں تو رات دی گئی ہے جس میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کے علم کا تھوڑا حصہ ہے اس کے بعد یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں، آیت کا شان نزول دلیل ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی تھی) جس میں نبی کریم (ﷺ) کے جواب کی تائید تھی کہ اگر زمین کے سارے درخت کاٹ کر قلم بنائے جائیں اور بحر محیط اور اس جیسے دوسرے سات سمندروں کا پانی بطور روشنائی استعمال کیا جائے اور اللہ کا کلام لکھا جائے تو سارے درخت اور سارے سمندروں کا پانی ختم ہوجائے اور اللہ کا کلام ختم نہ ہو۔