قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے (٢١) کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور سلام ہو اس کے بندوں پر جنہیں اس نے اپنی رسالت کے لیے چن لیا، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ معبودان باطل جنہیں مشرکین اسی کا شریک بناتے ہیں۔
21۔ مجرموں کی ہلاکت اور مومنوں کی نجات کی خبر دینے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ وہ اس نعمت پر اپنے رب کا شکر ادا کریں، اور امت محمدیہ کو تعلیم دی ہے کہ جب بھی انہیں اللہ کی کوئی نعمت حاصل ہو تو وہ اپنے رب کا شکر بجا لائیں جس نے اپنے فضل سے انہیں وہ نعمت دی ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) اور آپ کی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ دعوت کے میدان میں جب سامعین کے سامنے کوئی تقریر کرنی چاہیں یا کوئی تحریر پیش کریں تو اللہ کی برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا آغاز اللہ کی حمد و ثنا اور انبیائے کرام جو اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں ان پر درود و سلام سے کریں۔ اسی لیے نبی کریم (ﷺ) کے زمانے سے ہر دور میں علماء خطباء اور واعظین کا یہی طریقہ رہا ہے۔ نیز اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی حمد و ثنا اور انبیائے کرام پر درود و سلام کے بعد، مشرکین مکہ سے پوچھیں کہ اللہ بہتر ہے، یا وہ معبودان باطل جنہیں وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان معبودانِ باطل میں کوئی خیر نہیں ہے، اور یہ بات کفار مکہ کو معلوم ہے، اور پھر بھی وہ انہی کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ کیسی بے عقلی، کیسی جہالت اور کیسی نفس پرستی ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ ان میں کوئی بھلائی نہیں ہے، پھر بھی انہیں اپنا معبود مانتے ہیں، ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں، اور ان کے سامنے سر ٹیکتے ہیں۔ فللہ الحمد علی نعمۃ التوحید۔