قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ
انہوں نے کہا ہم نے تو تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے بدشگونی لی ہے صالح نے کہا تمہاری نحوست اللہ کی طرف سے ہے بلکہ تمہیں آزمایا جارہا ہے۔
لیکن صالح (علیہ السلام) کی اس تقریر کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا، اور جواب میں کہا کہ اے صالح ! ہم لوگ تو تم سے اور تمہارے ماننے والوں سے بد شگونی ہی لیتے ہیں، یعنی جب سے تم نے یہ نئی بات شروع کی ہے ہمیں نقصان ہی پہنچتا آیا ہے، صالح (علیہ السلام) نے جواب میں ان سے کہا کہ تمہیں جو بھی خیر و شر پہنچتا ہے وہ اللہ کی تقدیر سے پہنچتا ہے، وہ چاہتا ہے تو تمہیں روزی دیتا ہے، نہیں چاہتا ہے تو محروم رکھتا ہے، حقیقت یہ کہ تم پر تمہارے کفر اور گمراہی کا جادو چل گیا ہے، جو بات تمہاری خواہش نفس کے موافق ہوتی ہے اسے اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو اور جو تمہاری مرضی اور خواہش کے موافق نہیں ہوتی اسے اپنے لیے بدشگونی سمجھتے ہو۔