سورة النمل - آیت 44

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس سے کہا گیا کہ محل کے اندر چلو (١٦) پس جب اس نے اسے دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا، اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان نے کہا، یہ شیشے کا بنا ہوا ایک محل ہے جسے خوب چمکایا گیا ہے، ملکہ نے کہا میرے رب ! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی خاطر اسلام کا اعلان کرتی ہوں۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

16۔ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ایک ایسا محل تھا جس کا فرش چکنے شیشے کا بنا ہوا تھا، اور اس کے نیچے ایک بڑا تالاب تھا جس میں بہت سی مچھلیاں تھیں، اور پانی میں تموج پیدا ہوتا رہتا تھا، انہوں نے بلقیس اور اس کی قوم کو اپنی نبوت اور عظیم سلطنت کی ایک اور نشانی دکھانی چاہی، چنانچہ وہ اس محل میں جا کر بیٹھ گئے، اور ان کے ارد گرد انسانوں اور جنوں کا ایک بڑا لشکر جمع ہوگیا اور پھر اس سے کہا گیا کہ سلیمان (علیہ السلام) اس سے اس محل میں ملنا چاہتے ہیں، جب محل کے صحن میں پہنچی تو اس نے پانی سمجھ کر اپنی دونوں پنڈلیوں سے کپڑے اوپر اٹھا لیے، تو سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے کہا یہ پانی نہیں، بلکہ چکنے شیشے کا فرش ہے۔ یہ آخری چیز تھی جس نے بلقیس کی آنکھیں کھول دی۔ پہلی چیز سلیمان (علیہ السلام) کا خط تھا، جسے چڑیا نے اس کی گود میں ڈال دیا تھا، دوسری چیز اس کا ہدیہ تھا جسے انہوں نے رد کردیا تھا، تیسری چیز اس کے قاصدوں کا فلسطین سے واپس جانے کے بعد سلیمان (علیہ السلام) کی پاکیزہ زندگی کی گواہی تھی۔ اور اب اس آخری چیز نے ان کی نبوت پر ایمان لانے پر اسے مجبور کردیا کہ تمام دنیاوی آرام و آسائش کے اسباب مہیا ہونے کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) کا سرہر وقت شدت تواضع سے اللہ کے سامنے جھکا ہوا ہے۔ اسی لیے بے ساختہ پکار اٹھی کہ میں اب تک اللہ کے بجائے آفتاب کی پرستش کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی ہوں، میں سلیمان کی پیروی کرتے ہوئے اللہ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں، اور اپنے اسلام کا اعلان کرتی ہوں۔