فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
پس جب ان لوگوں نے انہیں جھٹلا دیا (٤٨) تو سائے کے دن کے عذاب نے انہیں پکڑ لیا، بیشک وہ ایک بڑے خطرناک دن کا عذاب تھا۔
48۔ جب انہوں نے اپنے نبی کی ہر بات کی تکذیب کردی، اور اپنے کفر و معاصی پر ان کا اصرار بڑھتا ہی گیا، تو اللہ کے عذاب نے نہیں اپنی گرفت میں لے لیا، جسے یہاں سایہ والے دن کے عذاب سے تعبیر کیا گیا ہے، اور بہت ہی خطرناک عذاب بتایا گیا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اصحاب مدین کے ہلاک کیے جانے کا واقعہ قرآن کریم کی تین سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں آیت 91 میں بتایا گیا ہے کہ زمین ان کے پاوں کے نیچے پوری شدت سے ہلنے لگی اور ان کے جسموں پر رعشہ طاری ہوگیا، اور سورۃ ہود آیت 44 میں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ ایک چیخ کے ذریعہ ہلاک کردئیے گئے، اور یہاں اس سورت میں ہے کہ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ آسمان کے ٹکڑے ان کے سروں پر گرا کر ہلاک کردئیے جائیں تو اللہ نے خبر دی کہ انہیں سایہ والے دن کے عذاب نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ نے جب انہیں ہلاک کرنا چاہتا تو ان پر تینوں قسم کے عذاب مسلط کردئیے۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کی سخت گرم ہوا بھیج دی جو سات دن تک وہاں چلتی رہی، جس کی گرمی سے ان کے بدن پک گئے، ان کے مکانات آگ بن گئے، کنووں اور چشموں کا پانی کھولنے لگا، تو اپنے گھروں سے بھاگ پڑے، جب باہر نکلے تو آفتاب کی شدید تمازت نے ان کے دماغوں کو کھولا دیا، اور ان کے قدموں کے نیچے کی زمین آگ بن گئ، یہاں تک کہ ان کے پاؤں جھلس گئے، پھر ایک سیاہ بادل ان کے سروں پر منڈلانے لگا، جس میں شروع میں ٹھنڈک تھی، اسی لیے تمام اصحاب مدین اس کے نیچے آ کر جمع ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ کی بارش کردی، اور رعشہ و کپکپی، چیخ و پکار اور آگ کی بارش سے سبھی ہلاک ہوگئے۔