وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا
اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی انبیا (٨) بھیجے سب کھانا کھاتے تھے، اور بازاروں میں چلتے تھے، اور ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے باعث آزمائش بنایا ہے (تاکہ دیکھیں) کیا تم صبر کرتے ہو؟ اور آپ کا رب سب کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
(8) اسی سورت کی آیت (7) میں مشرکین کی یہ استہزا آمیز حیرت بیان کی گئی تھی کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور طلب معاش کے لیے بازاروں کے چکر لگاتا ہے ان کے اسی سفیہانہ قول پر نکیر کی جارہی ہے کہ ابتدائے آفرینش سے جتنے انبیاء و رسول آئے سبھی انسان ہوتے تھے، کھانا کھاتے تھے اور طلب معاش کے لیے بازاروں میں جاتے تھے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہو۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیشہ سے ہمارا یہ طریقہ رہا ہے کہ ہم اپنی مخلوق میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈالتے ہیں، مومن کو کافر کے ذریعہ، مالدار کو فقیر کے ذریعہ، صحت مند کو بیمار کے ذریعہ اور شریف کو رذیل کے ذریعہ، اس لیے اے میرے رسول ! آپ صبر سے کام لیجیے اور مشرکین کی جانب سے آپ کو جو تکلیف پہنچ رہی ہے اسے برداشت کیجیے اور یقین رکھیے کہ آپ کا رب سب کچھ دیکھ رہا ہے، کون صبر کرتا ہے اور کون جزع فزع سے کام لیتا ہے، اسے سب معلوم ہے اور قیامت کے دن وہ صبر کرنے والوں کو اچھا سے اچھا بدلہ دے گا۔