فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ
پس جب صور (٣٣) پھونک دیا جائے گا، اس دن ان کے د رمیان نہ کوئی رشتہ داری رہے گی، اور نہ وہ ایک ودسرے کا حال پوچھیں گے۔
33۔ یہاں دوسری بار صور پھونکا جانا مراد ہے، جس کے بعد تمام لوگ زندہ ہو کر میدان محشر میں جمع ہونے کے لیے دوڑنے لگیں گے۔ اس وقت لوگوں پر ایسی گھبراہٹ اور خوف و دہشت طاری ہوگی کہ ہر ایک کو اپنی ذات کے سوا کسی سے کوئی دلچسپی نہیں رہے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ عبس آیات (34) سے (37) تک میں فرمایا ہے : ﴿ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ﴾اس دن آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا، ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی نجات کی ایسی فکر دامن گیر ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی۔ اور سورۃ المعارج آیت (10) میں فرمایا ہے : ﴿ وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا﴾ اس دن کوئی دوست اپنے کسی ودست کو نہیں پوچھے گا۔ اور سورۃ الصافات کی آیت (27) اور سورۃ الطور کی آیت (25) میں جو آیا ہے۔ ﴿ وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ﴾اس دن لوگ ایک دوسرے سے پوچھیں گے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں پر شدید گھبراہٹ قبروں سے نکلنے کے وقت ہوگی، اور ایک دوسرے سے پوچھنے والی بات کسی اور وقت ہوگی، اس لیے کہ آیات و احادیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیامت کا دن طویل ہوگا س۔ اور اس طویل مدت میں لوگ مختلف حالات سے گزریں گے۔