أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں جاری ہوں، اس میں اس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں، اور اس کا بڑھاپا آجائے، اور اس کے کمزور و ناتواں بچے ہوں، اور اچانک وہ باغ ایک بگولے کی زد میں آجائے جس میں آگ ہو جو اسے جلا دے، اللہ اسی طرح تمہارے لیے آیتوں کو بیان کرتا ہے، تاکہ تم غور کرو۔
تیسری قسم : ان لوگوں کی ہے جو خرچ تو کرتے ہیں اللہ کے لیے لیکن اس کے بعد احسان جتاتے ہیں، اور لوگوں کو بتا بتا کر صاحب حاجت کو اذیت پہنچاتے ہیں، اور اس طرح اپنا عمل ضائع کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس آدمی کی ہے جس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس کے نیچے نہریں جاری ہوں اور جس میں ہر قسم کے پھل ہوں اور باغ والا بوڑھا ہوچکا ہو، اور اس کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اچانک ایک سخت آندھی آتی ہے جو کہیں سے آگ اٹھا کر لاتی ہے اور باغ کو جلا دیتی ہے اور باغ والے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ دنیا میں نیک اعمال کرنے والے انہیں تینوں قسموں میں سے ایک قسم کے ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہئے کہ اپنی نیت کا محاسبہ کرتا رہے، اور ہر ممکن کوشش کرے کہ اس کا ہر عمل صالح صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو، تاکہ آخرت میں ذلت و رسوائی اور خسارے کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔