وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ
اور اللہ کی راہ میں جیسی کوشش (٤٠) ہونی چاہیے ویسی کوشش کرتے رہو، اس نے تم مسلمانوں کو چن لیا ہے، اور تمہارے لیے دین اسلام میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے وہی جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین و مذہب تھا اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، ان کتابوں میں جو پہلے نازل ہوئی ہیں اور اس قرآن میں بھی تاکہ قیامت کے دن رسول تمہارے بارے میں گواہی دیں اور تم لوگوں کے بارے میں گواہی دو پس مسلمانوں تم لوگ نماز قائم کرو، زکوۃ دو اور اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط رکھو، وہی تمہارا آقا ہے پس وہ بہت ہی اچھا آقا اور بہت ہی بہترین مددگار ہے۔
(40) یہاں بھی خطاب مومنوں سے ہی ہے کہ اللہ کے لیے اپنی جان مال اور زبان کے ذریعہ جہاد کرو، تاکہ زمین سے شرک و کفر اور فتنہ انگیزی کا خاتمہ ہوجائے اور ہر طرف دین اسلام کا دور دورہ ہوجائے، اس نے تمہیں اپنے دین کی نصرت و تائید کے لیے چن لیا ہے اور جو دین اسلام تمہیں عطا کیا ہے اس میں کوئی تنگی نہیں ہے جو اعمال تمہاری طاقت سے زیادہ تھے ان کا یا تو تمہیں مکلف نہیں کیا، یا انہیں ہلکا بنا دیا تو بہ و استغفار کا دروازہ کھول دیا، تاکہ تم توبہ کرتے رہو اور وہ تمہارے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ دین اسلام فطرت انسانی کے مطابق اور آسان دین ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ التغابن آیت (16) میں فرمایا ہے : ﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ اپنی استطاعت بھر اللہ سے ڈرتے رہو، اور سورۃ البقرہ آیت (185) میں فرمایا ہے : ﴿ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ﴾اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ اور نبی کریم (ﷺ)کی صحیح حدیث ہے۔ میں وہ دین دے کر بھیجا گیا ہوں جس کی بنیاد توحید پر ہے اور جو آسان ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دین اسلام تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو مسلمانوں کا باپ اس لیے کہا گیا کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے باپ تھے، پھر فرمایا کہ تمہارا نام مسلمان اللہ نے رکھا ہے اور یہ نام گزشتہ آسمانی کتابوں میں مذکور ہے، اور قرآن میں بھی مذکور ہے، یعنی اللہ نے تمہیں اتنا باعزت نام دے کر گزشتہ امتوں پر فوقیت دی ہے۔ اور اللہ نے تمہیں اتنی اچھی، معتدل، صاحب خیر اور نیک نام امت اس لیے بنایا ہے تاکہ قیامت کے دن رسول اللہ (ﷺ) کہہ سکیں کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا، اور تم گواہی دو کہ تمام رسولوں نے اپنی امتوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، اس لیے کہ اس دن جب تمام امتیں امت مسلمہ کی سرداری اور فضیلت کا اعتراف کرلیں گی تو ان کی گواہی ان امتوں کے بارے میں قبول کی جائے گی۔ سورۃ البقرہ آیت (143) میں اللہ نے فرمایا ہے : ﴿ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾ ہم نے اس طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول اللہ (ﷺ) تم پر گواہ ہوجائیں۔ اور اس عظیم نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اللہ کے شکر میں نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اسی کی بارگاہ میں پناہ لو، اس لیے وہی تمہارا آقا ہے اور وہ کیا ہی خوب آقا، اور کیا ہی بہتر حامی و ناصر ہے،