إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
بیشک جن لوگوں نے کفر کی راہ (١٤) اختیار کی، اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں سکونت پذیر اور باہر سے آنے والا دونوں برابر ہیں، اور جو کوئی اس میں اللہ کے حدود کو تجاوز کرتے ہوئے شرک و بدعت کی راہ اختیار کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
(14) یہ آیت کریمہ ان مشرکین مکہ سے متعلق نازل ہوئی تھی جنہوں نے نبی کریم (ﷺ)اور صحابہ کرام کو صلح حدیبیہ کے سال مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اللہ تعالیٰ نے انہی کے فعل پر نکیر کی ہے اور خبر دی ہے کہ ہم انہیں دردناک عذاب چکھائیں گے لیکن اس کا یہ حکم ہر اس شخص کو شامل ہے جو کسی بھی زمانے میں کفر کرے گا اور لوگوں کو مسجد حرام سے روکے گا۔ سبیل اللہ سے مراد دین اسلام ہے المسجد الحرام سے مراد یا تو مسجد حرام ہے جیسا کہ قرآن کریم کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے یا وہ پورا علاقہ ہے جو حدود حرم میں داخل ہے اس قول کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ صلح حدیبیہ کے سال کافروں نے رسول اللہ (ﷺ) اور صحابہ کرام کو صرف مسجد حرام سے نہیں بلکہ حرم کے حدود میں داخل ہونے سے روک دیا تھا یا اس سے مراد مکہ شہر ہے اس کی تائید اس کے بعد کی عبارت سے ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مکہ میں مقیم اور باہر سے آنے والے دونوں ہی وہاں اقامت پذیر ہونے میں برابر ہیں۔ قرطبی لکھتے ہیں کہ اس بات پر تمام علما کا اتفاق ہے کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے، عبادت کرنے اور اس میں ٹھہر کر ذکر الہی کرنے میں سبھی برابر ہیں۔ کوئی کسی کو وہاں سے نکلنے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے، البتہ مکہ شہر کے بارے میں اختلاف ہے : مجاہد : ابو حنیفہ اور مالک وغیرہم کی رائے ہے کہ مکہ کے گھروں سے استفادہ کرنے میں مقیم اور باہر سے آنے والے دونوں برابر ہیں، اور اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ مکہ کی عمارتوں کی خریدوفروخت جائز نہیں ہوگی، ان حضرات نے آیت میں مسجد حرام سے مراد مکہ شہر لیا ہے اور متعدد مرفوع احادیث سے استدلال کیا ہے، جنہیں طبرانی، دار قطنی اور ابن مردویہ وغیرہم نے روایت کی ہے اور جن میں اس بات کی صراحت پائی جاتی ہے کہ مکہ کے گھروں کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے۔ شافعی اور جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ مکہ شہر کی عمارتیں اور مکانات مسجد حرام کی مانند نہیں ہیں، ان لوگوں نے مسجد حرام سے مراد مسجد لی ہے اور کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم (ﷺ)نے اہل مکہ کے گھروں کی ملکیت ان کے لیے تسلیم کی تھی۔ چنانچہ فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے گا وہ مامون ہوجائے گا، اور جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا وہ مامون ہوجائے گا اور صحیحین کی حدیث ہے کہ جب نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مکہ میں اپنے گھر میں قیام کریں گے؟ تو آپ نے فرمایا، کیا عقیل (ابو طالب کے بیٹا) نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑ دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْĬ جو لوگ اپنے گھروں سے نکالے گئے، اس آیت میں گھر کی ملکیت لوگوں کے لیے ثابت کی گئی ہے، اور یہ بھی ثابت ہے کہ عمر بن خطاب نے صفوان بن امیہ کا گھر خرید کر اسے جیل خانہ بنا دیا تھا۔ انہی دلائل کی روشنی میں اب تقریبا تمام ہی علماء مکہ کی عمارتوں کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیتے ہیں اور اس پر ایک قسم کا اجماع سکوتی ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم۔ الحاد کا لغوی معنی انحراف اور ایک طرف ہونا ہے، اور ظلم سے مراد بعض کے نزدیک شرک، بعض کے نزدیک شرک اور قتل اور کسی کے نزدیک جھوٹی قسم ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مکہ میں کسی بھی گناہ کا ارتکاب ہے۔ سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ مسجد حرام میں اگر کوئی شخص گناہ کا ارادہ کرے گا تو اس پر اللہ کے نزدیک اس کا مواخذہ ہوگا۔