يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ
جس دن تم اسے دیکھو گے (اس دن) ہر دودھ پلانے والی (مارے دہشت کے) اس بچے کو بھول جائے گی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی اور اس (دن) آپ لوگوں کو دیکھیں گے کہ جیسے ان پر نشہ طاری ہے، حالانکہ وہ نشہ کی حالت میں نہیں ہوں گے، بکہ اللہ کا عذاب شدید ہوگا۔
حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے، یہ دراصل اللہ کا ایک عذاب ہوگا جس میں وہ اپنی بدترین مخلوق کو مبتلا کرے گا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ خوف و ہراس اور اضطراب و پریشانی ہے جو قیامت کے دن لوگوں کو قبروں سے نکلنے کے بعد میدان محشر میں لاحق ہوگی، ابن جریر نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور اس کی تائید میں کئی احادیث پیش کی ہے، ان میں سے ایک حدیث امام بخاری نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں روایت کی ہے کہ اس دن مارے خوف و دہشت کے حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے، اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے، اور پھر آپ نے پڑھی۔ اکثر مفسرین نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے لیکن چونکہ بعض وہ حدیثیں بھی صحیح ہیں جن میں وقوع قیامت کے بعد کے حالات بیان کیے گئے ہیں اور ان میں بتایا گیا ہے کہ اس دن حاملہ کا حمل گر جائے گا اس لیے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اگرچہ اس آیت میں وہی زلزلہ مراد ہے جو قیامت آنے سے پہلے واقع ہوگا، لیکن اسی کے مشابہ حالات میدان محشر میں بھی واقع ہوں گے جب ہر آدمی غایت درجہ اضطراب و پریشانی میں ہوگا، اور مارے رعب و دہشت کے سب کی حالت ویسی ہوگی جیسی حالت میں حاملہ شدت خوف سے قبل از وقت اپنا حمل ساقط کردیتی ہے۔