وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ
اور قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کی ترازوئیں قائم کریں گے، پس کسی آدمی پر کچھ بھی ظلم نہیں ہوگا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابربھی کوئی عمل ہوگا تو اسے ہم سامنے لائیں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔
آیت (٤٧) میں اسی قیامت کا حال بیان کیا گیا ہے جس سے مشرکوں کو اوپر کی آیتوں میں ڈرایا گیا ہے اور جس کی وہ تکذیب کرتے رہے تھے کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے اعمال کو پورے عدل و انصاف کے ساتھ وزن کرے گا، کس پر کوئی ظلم نہیں ہوگا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کسی کا کوئی عمل ہوگا تو اللہ اسے سامنے لائے گا اور اس کے دیگر اعمال کے ساتھ اس کا وزن کرے گا۔ اور اللہ سے بڑھ کر حساب میں کون دقیق ہوسکتا ہے؟ اس لیے کہ اس سے زیادہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کو کون جانتا ہے؟ یہ آیت اس پر بھی دلیل ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا، سورۃ الاعراف آیت (٨) کی تفسیر کے ضمن میں وزن اعمال پر تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے، سورۃ الکہف آیت (١٠٥) میں بھی مجمل طور پر اس کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ یہاں ایک بات یہ بتانی ہے کہ انبیائے کرام اور فرشتوں کے اعمال کا وزن نہیں ہوگا، کیونکہ ان کا حساب ہی نہیں ہوگا، اسی طرح ان تمام لوگوں کے اعمال وزن نہیں کیے جائیں گے، جنہیں اللہ بے حساب و کتاب جنت میں داخل کرے گا۔ صرف انہی جنوں اور انسانوں کے اعمال کا وزن ہوگا جن کا میدان محشر میں حساب ہوگا اور جن کے اعمال اللہ کے سامنے سے گزارے جائیں گے۔