لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ
اگر ہم دل بہلاوے کے لیے (بیوی یا اولاد) بنانا چاہتے، تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کو یہ کرنا ہوتا۔
آیت (١٧) میں گزشتہ مضمون کی تاکید ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم لہو و لعب کی نیت سے کسی کو اپنی بیوی اور کسی کو اپنا بیٹا بناتے، جیسا کہ مشرکین عرب کہا کرتے ہیں کہ اللہ نے جن سے ازدواجی تعلق قائم کیا تو فرشتے اس کی بیٹیاں پیدا ہوئیں، اور جیسا کہ نصاری کہتے ہیں کہ اللہ نے مریم کو اپنی بیوی بنا لیا جس سے عیسیٰ پیدا ہوئے، اگر ہم بفرض محال ایسا چاہتے تو حوروں اور ہماری عبادت میں مشغول فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیتے، لیکن ہم نے ایسا نہیں چاہا، اور نہ ہمارے لیے یہ بات مناسب ہے، ہم تو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کے مالک ہیں سب ہمارے غلام ہیں، کیا کبھی کوئی آدمی اپنی باندی کو بیوی اور غلام کو بیٹا بنا لیتا ہے، جب انسان ایسا نہیں کرتا ہے تو خالق کائنات کے بارے میں ایسی بات کیوں کر سوچی جاتی ہے؟