قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس نے کہا، میں نے وہ چیز دیکھ لی تھی جو اوروں نے نہیں دیکھی تھی، تو میں نے جبریل کے پاؤں تلے کی ایک مٹھی مٹٰ لے لی، پھر اسے بچھڑے کے ڈھانچے میں ڈال دی اور میرے نفس نے مجھے اسی طرح کرنے کو اچھا بتا دیا۔
تو جواب دیا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ لی تھی جو تمہاری قوم نے نہیں دیکھی تھی، جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سامری کو فتنہ میں ڈالنا چاہا، اس لیے اس نے جبریل کو ایک گھوڑے پر سوار دیکھا اور دیکھا کہ جہاں گھوڑے کی ٹاپ پڑی اس جگہ پودے اگ گئے، سامری دیکھ کر سمجھ گیا کہ اگر جبریل کے گھوڑے کے کھر کی مٹی کسی جماد پر ڈال دی جائے گی تو اس میں زندگی آجائے گی، اسی لیے اس نے اس مٹی کو محفوظ کرلیا اور جب بچھڑا بنایا تو اس کے اندر وہ مٹی ڈال دی جس کے اثر سے اس سے بچھڑے کی آواز آنے لگی۔