وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَا مُوسَىٰ
اور اے موسیٰ ! آپ نے اپنی قوم سے پہلے آجانے میں کتنی جلدی کی (٣١)
(٣١) فرعون کی ہلاکت کے بعد جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر آگے بڑھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو لے کر جبل طور کے پاس جائیں اور وہاں چالیس دن اور رات کا روزہ رکھیں، تاکہ اللہ انہیں تورات عطا کرے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے شوق میں عجلت سے کام لیا اور اکیلے کوہ طور کی طرف روانہ ہوگئے، اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو کہا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر اطمینان سے آئیں، ان کی روانگی کے بعد سامری نے بنی اسرائیل کو فتنہ میں ڈال دیا، اس نے فرعونیوں کے چھوڑے ہوئے زیورات سے ایک بچھڑا بنایا، اور اس میں جبریل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے کھر کے نیچے کی ایک مٹھی مٹی ڈال دی جس کی وجہ سے اس سے ایک آواز نکلنے لگی، اور بنی اسرائیل اس سے متاثر ہو کر اس کی عبادت کرنے لگے، اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نہیں گئے، جب چالیس دن کی مدت پوری ہوگئی تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی بنی اسرائیل کی گمراہی کی خبر دی۔ اس آیت کریمہ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے، اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی عجلت پر عتاب ہے کہ آپ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر تنہا آنے کی کیوں عجلت کی جبکہ آپ کو حکم یہ تھا کہ انہیں ساتھ لے کر آتے؟