وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دے دو، اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں، تو انہیں اس بات سے نہ روکو (326) کہ وہ اپنے گذشتہ شوہروں سے دوبارہ شادی کرلیں، اگر وہ مشروع شرائط کے مطابق آپس میں راضی ہوجائیں، یہ نصیحت تم میں سے انہیں کی جا رہی ہے، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمہارے لیے زیادہ پا کیزگی اور طہارت نفس کی بات ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے۔
اس آیت میں مطلقہ غیر بائنہ عورت کے ولی کو خطاب کیا گیا ہے کہ اگر ایک یا دو طلاق کے بعد عدت گذر جائے، اور پھر دونوں ایک دوسرے کو چاہیں، اور نکاح شرعی کے ذریعہ دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہیں تو انہیں نہ روکو اس لیے کہ اسی میں ہر خیر ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت معقل بن یسار مزنی (رض) اور ان کی بہن کے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنی بہن کی شادی ایک مسلمان سے کردی، کچھ مدت کے بعد اس نے ایک طلاق دے دی اور پھر رجوع نہیں کیا، عدت گذر جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے میں رغبت ظاہر کی، اور اس آدمی نے دوبارہ پیغام نکاح دیا، تو معقل (رض) نے انکار کردیا، اور کہا کہ اب یہ تیرے نکاح میں کبھی بھی نہ جائے گی، لیکن اللہ کو ان دونوں کی حاجت و رغبت کا علم تھا۔ اس لیے یہ آیت نازل فرمائی۔ جب معقل (رض) نے یہ آیت سنی تو کہا کہ اے اللہ ! میں نے تیری بات سنی اور میں تیری اطاعت کرتا ہوں پھر اس آدمی کو بلا کر کہا کہ میں اپنی بہن سے تمہاری شادی کردوں گا اور تمہارا اکرام کروں گا۔ (بخاری، ابو داود، ترمذی) فائدہ : یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو منع فرمایا ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو دوبارہ اپنے سابق شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے روکیں، اور روکنے کا حق اسی کو حاصل ہوگا جس کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔