فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اس کے بعد شوہر اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دے (324) تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے، پھر اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے، تو دونوں کے لیے کوئی حرج کی بات نہیں کہ آپس میں مل جائیں، اگر نہیں یقین ہو کہ اللہ کے حدود کو قائم رکھیں گے، اور یہ اللہ کے حدود ہیں، جنہیں وہ جاننے والی قوم کے لیے بیان کر رہا ہے
324: یہاں مراد تیسری طلاق ہے، کہ اگر شوہر تیسری طلاق دے دے، تو وہ عورت اس کے لیے نہ رجعت کے ذریعہ حلال ہوگی، اور نہ ہی نکاح جدید کے ذریعہ، یہاں تک کہ کوئی اور مرد اس سے برضا و رغبت اور عرف عام کے مطابق ہمیشہ کے لیے ازدواجی ززندگی گزارنے کے لیے شادی کرے، اور اس کے ساتھ ہمبستری کرے، پھر کسی وجہ سے اسے طلاق دے دے، تو نکاح جدید کے ذریعہ اسے اپنی زوجیت میں لا سکتا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دونوں کا غالب گمان ہو کہ دوبارہ وہ اچھی ازدواجی زندگی گزار سکیں گے، اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئی اور کہا کہ رفاعہ نے مجھے تیسری اور آخری طلاق دے دی تھی، اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر قرظی سے شادی کرلی، لیکن اس کا مردانہ آلہ تو کپڑے کے پھندنے کی مانند ہے، تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کہ شاید تم رفاعہ کی زوجیت میں دوبارہ جانا چاہتی ہو ایسا نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ تم دونوں ایک دوسرے کی مٹھاس کو چکھ لو۔ (یعنی وہ تمہارے ساتھ جماع کرلے) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح حلالہ کے ذریعہ اگر کوئی آدمی اس عورت کے ساتھ جماع بھی کرلیتا ہے، تو وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی، اس لیے کہ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت کی خبر دی ہے۔ اور جس پر لعنت بھیج دی گئی ہو وہ شادی صحیح نہیں ہوسکتی۔ اور اس لیے بھی کہ عرف عام کے مطابق شادی اسے کہتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے ازدواجی زندگی گذارنے کے لیے کی گئی ہو، اور نکاح حلالہ پر یہ تعریف صادق نہیں آتی۔ مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ احادیث کی کتابوں میں نکاحِ حلالہ سے متعلق حدیثیں دیکھئے۔ حاکم نے نافع سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں دریافت کیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی، اس کے بعد اس کے ایک بھائی نے بغیر کسی سابق ساز باز کے اس سے شادی کرلی، تاکہ اسے اپنے بھائی کے لیے حلال بنا دے تو کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی؟ تو ابن عمر (رض) نے کہا کہ نہیں، ایسے نکاح کے بغیر حلال نہیں ہوگی، جو اس رغبت کے ساتھ کیا گیا ہو کہ اس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ازدواجی زندگی گذارنی ہے، پھر فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانے میں ایسے نکاح کو زنا تصور کرتے تھے۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔