سورة البقرة - آیت 228

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور مطلقہ عورتیں تین حیض (320) گذر جانے تک انتظار کریں گی، اور اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں، تو جو بچہ اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کردیا ہے اسے چھپانا ان کے لیے حلال نہیں، اور ان کے شوہر اگر اصلاح کی نیت رکھتے ہوں تو انہیں لوٹا لینے کے زیادہ حقدار ہیں اور بیویوں کے شوہروں پر عرف عام کے مطابق حقوق ہیں، جس طرح شوہروں کے ان پر حقوق ہیں اور مردوں کو عورتوں پر ایک گنا فوقیت حاصل ہے اور اللہ زبردست اور بڑا صاحب حکمت ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

320: اس آیت کریمہ میں ایسی مطلقہ عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کی ماہواری ابھی رکی نہ ہو، اور جس کے ساتھ اس کا شوہر ہمبستری کرچکا ہو، کہ اگر اس کا شوہر اسے طلاق رجعی دے دے، تو اس کی عدت تین ماہواری ہوگی، قرآن کریم نے ثلاثۃ قروء کا لفظ استعمال کیا ہے، صحیح قول یہی ہے کہ قروء سے مراد حیض ہے، یعنی عورت کو تین حیض کی مدت بطور عدت گذارنی پڑے گی، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس کے رحم میں بچہ نہیں ہے اور مقصود اس سے یہ ہے کہ لوگوں کا نسب خلط ملط نہ ہو۔ اسی لیے عورت کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ اپنے رحم کی حالت چھپائے اگر حمل کو چھپائے گی تو بچے کو اس کے غیر باپ کے ساتھ ملائے گی جس کے بد ترین اور سنگین نتائج ظاہر ہوں گے، بچہ اپنے خاندان اور حق وراثت سے محرم ہوجائے گا، محرم عورتیں اس سے پردہ کریں گی، بلکہ بہت ممکن ہے وہ اپنی کسی محرم عورت سے شادی کرلے۔ اسی طرح جس غیر باپ کی طرف وہ منسوب کردیا جائے گا اس کے مال کا ناجائز وارث ہوگا، اس کی عورتوں کا غیر شرعی محرم بن جائے گا، اور شر و فساد کے دیگر ایسے دروازے کھل جائیں گے، جنہیں کوئی بند نہ کر پائے گا۔ مثال کے طور پر اگر وہ عورت حمل کو چھپا دیتی ہے اور کسی دوسرے سے شادی کرلیتی ہے تو یہ شادی حرام ہوگی، اور دوسرے آدمی کا اس کے ساتھ جماع کرنا زنا ہوگا۔ اور حیض کو چھپا دیتی ہے اور کہہ دیتی ہے کہ طلاق کے بعد تین ماہواری گذر چکی، تو اس نے شوہر کا حق رجعت ختم کردیا اور اپنے آپ کو دوسرے آدمی کے لیے غیر شرعی طور پر مباح کردیا، اور اگر کہتی ہے کہ ابھی تین ماہواری نہیں گذری ہے حالانکہ گذر چکی ہے، تو وہ ناحق نان و نفقہ لینا چاہتی ہے جو اس کے لیے حرام ہے، اور اگر شوہر اس سے رجوع کرلیتا ہے تو اس کے ساتھ ہمبستری حرام ہوگی، اس لیے کہ عدت گذرنے کے بعد عقد جدید ضروری تھا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر شوہر کی نیت اصلاح کی ہے تو عدت گذر جانے سے پہلے اپنی بیوی کو لوٹا لینے کا وہ زیادہ حقدار ہے۔ اور اگر عورتوں کے اوپر شوہروں کے حقوق ہیں، تو شوہروں کے اوپر بھی عورتوں کے حقوق ہیں۔ عرف عام کے مطابق کھانا، کپڑا، اچھا برتاؤ، رہائش اور ہمبستری وغیرہ عورتوں کے شوہروں پر حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے جس کا لحاظ بیویوں کو بہرحال کرنا ہے۔ فوائد : 1۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ تین حیض کی مدت پوری ہوجانے کے سلسلے میں عورت کی بات مانی جائے گی۔ 2۔ اگر عورت کی ماہواری بند ہوچکی ہے یا ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچی ہے تو اس کی عدت تین ماہ ہوگی اور اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہوگی اور اگر شوہر نے ابھی بیوی کے ساتھ ہمبستری نہیں کی ہے، تو اس پر کوئی عدت نہیں ہے،