وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا
اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں کی تلاوت (٤٥) کی جاتی ہے تو اہل کفر ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ہم دونوں گروہوں میں سے مقام و مرتبہ اور مجلس کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے۔
(45) کفار قریش کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کی جاتی ہے جو توحید و رسالت، بعث بعد الموت اور حساب و جزا کو کھول کر بیان کرتی ہیں اور مومنوں کے لیے جنت کے وعدے اور کافروں کے لیے جہنم کی وعید کا ذکر کرتی ہیں تو وہ لوگ اپنا اندرونی درد و الم چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ ہم دنیاوی اعتبار سے محمد کے پیروکاروں سے اچھی حالت میں ہیں، ہمارے مکانات اچھے ہیں، ہماری مجلسیں آباد ہیں، لوگوں کی بھیڑ لگی ہے، کوئی آرہا ہے، کوئی جارہا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم تو گمراہ ہوں اور جو لوگ دار ارقم میں چھپے ہوئے ہیں وہ ہدایت یافتہ ہوں؟