فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
پھر ان کے بعد ان کی اولاد میں ایسے لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع (٣٧) کردیا اور خواہشات کی پیروی کی، تو وہ قیامت کے دن (جہنم کی وادی) غی میں جگہ پائیں گے۔
(37) یہاں تک انبیائے کرام کے فضائل و محاسن کا ذکر ہوا، تاکہ لوگ ان کی اتباع کریں اور ان کی راہ کو اپنائیں۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہورہا ہے جو انبیاء کے بعد آئے اور ان کے نقش قدم پر نہیں چلے، ان کی دعوت کو پس پشت ڈال دیا، اور نماز کو ضائع کردیا، یعنی وقت گزر جانے کے بعد پڑھی، یا اس کا کوئی ضروری رکن، یا کوئی شرط چھوڑ دی، اور جس شخص نے نماز پڑھنی بالکل چھوڑ دی، یا اس کا انکار کردیا، وہ تو بدرجہ اولی اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ اس آیت کریمہ میں نماز ضائع کرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں۔ کسی نے کہا : یہود مراد ہیں اور کسی نے کہا ہے : نصاری مراد ہیں اور مجاہد نے کہا ہے ان سے مراد امت محمدیہ کے وہ لوگ ہیں جو آخری زمانہ میں آئیں گے۔ جانوروں کے مانند سڑکوں پر جمع ہوں گے، نہ انسانوں سے شرمائیں گے اور نہ ہی اللہ سے ڈریں گے، اپنی خواہشات نفس کی اتباع کریں گے، گناہوں میں ڈوب جائیں گے، شراب پئیں گے، جھوٹی گواہی دیں گے، حرام کھائیں گے، لہو و لعب میں مشغول ہوں گے، اور فسق و فجور کا ارتکاب کریں گے، یہی لوگ بدترین جانشین ہوں گے، ان کا انجام بہت ہی برا ہوگا، ایک رائے یہ ہے کہ ’’ غی‘‘ جہنم میں ایک کنواں یا ایک وادی ہے یعنی قیامت کے دن ایسے لوگ جہنم کے اسی کنواں یا وادی میں ڈال دیئے جائیں گے۔