سورة البقرة - آیت 224

وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور تم لوگ اپنی قسموں (316) میں اللہ کو آڑ نہ بناؤ، تاکہ لوگوں کے ساتھ بھلائی، تقوی اور ان کے درمیان اصلاح کا کام نہ کرو، اور اللہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

316: اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ مسلمان جب قسم کھائے تو اسے پورا کرے، لیکن اگر قسم ایسی ہو جو کسی عمل صالح کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو تو ایسی قسم توڑ دی جائے گی اور اس نیک کام کو پورا کیا جائے گا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا جائے گا۔ بعض لوگ اپنے بعض رشتہ داروں سے کسی وقتی اختلاف اور ناراضگی کی وجہ سے قسم کھا لیتے تھے کہ آئندہ اس کے ساتھ وہ بھلائی جاری نہیں رکھیں گے جو وہ پہلے سے کرتے آرہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اس کی ممانعت فرمائی ہے کہ اپنی قسموں کو نیکی، تقوی اور بھلائی کی راہ میں رکاوٹ نہ بناؤ۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، اگر میں کسی بات پر قسم کھا لوں اور بعد میں اس سے بہتر صورت نظر آجائے، تو ان شاء اللہ میں وہی کروں گا جو بہتر ہے اور قسم توڑ دوں گا۔ اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ جو کوئی قسم کھائے اور بعد میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نظر آئے، تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے اور وہی کرے جو بہتر ہے۔ فوائد : 1۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں ہر بات پر قسم کھانے کی ممانعت آئی ہے۔ 2۔ اگر کوئی شخص ترک واجب کی قسم کھاتا ہے تو قسم توڑ دینا واجب ہوگا، اور اگر ترک مستحب کی قسم کھاتا ہے تو قسم توڑنا مستحب ہوگا، اور اگر کوئی حرام کام کے ارتکاب کی قسم کھاتا ہے تو اس پر بھی قسم توڑ دینا واجب ہوگا۔