فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا
پھر زچگی کی تکلیف (١١) نے اسے کھجور کے درخت کے پاس پہنچا دیا، کہنے لگی، اے کاش ! میں اس سے پہلے ہی مرچکی ہوتی اور ایک بھولی بسری یاد بن گئی ہوتی۔
(11) مریم علیہا السلام کے حمل کی مدت کے بارے میں کئی اقوال آئے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ حمل اور وضع حمل کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ مدت حمل نو ماہ تھی، بہرحال حمل کی مدت جو بھی ہو روایات سے اتنی بات سمجھ میں ااتی ہے کہ ظہور حمل کے بعد جب لوگوں کی چہ میگوئیوں کا انہیں ڈر ہوا تو بیت المقدس اور اپنی قوم سے دور بیت لحم نام کی بستی چلی گئی جو بیت المقدس سے صرف آٹھ میل دور تھی جہاں وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئیں، تاکہ ان کے طعنوں سے بچی رہیں۔ بالاخر ولادت کا وقت قریب آگیا اور درد کی شدت بڑھ گئی تو ایک کھجور کے درخت کے پاس چلی گئیں تاکہ ولادت کے وقت اس کا سہارا لے سکیں اور جب انہیں لوگوں کے عار دلانے کا خیال آیا تو بشری تقاضے کے مطابق کہنے لگیں، کاش ! مجھے اس سے پہلے موت آگئی ہوتی، میں ایک بھولی بسری کہانی بن گئی ہوتی۔ فراء کہتے ہیں کہ نسی حیض سے ملوث چیتھڑے کو کہتے ہیں، یعنی کاش ! میں حیض کا وہ کپڑا ہوتی جسے پھینک دیا جاتا ہے۔