قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا
آپ کہیئے کہ اگر میرے رب کے کلمات (٦٤) لکھنے کے لیے سارا سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر خشک ہوجائے گا، چاہے مدد کے لیے ہم اسی جیسا اور سمندر لے آئیں۔
(64) یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ازلی ہے، وہ جب اور جس سے چاہتا ہے کلام کرتا ہے، اس کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اگر اللہ کے علوم و حکم کے کلمات لکھے جائیں اور سمندر کا پانی بطور روشنائی استعمال کیا جائے، تو کلمات الہی ختم نہ ہوں گے اور سمندر کا پانی ختم ہوجائے گا، اور اگر اسی سمندر جیسا دوسرا سمندر بھی بطور روشنائی استعمال کیا جائے، تو وہ بھی ختم ہوجائے گا اور اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے یہود کے سکھانے پر رسول اکرم سے روح کے بارے میں سوال کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے، اور یہود مدینہ کو اس آیت کا پتہ چلا تو کہنے لگے کہ تورات میں تمام چیزوں کا علم موجود ہے، تو ان کے رد میں آیت نازل ہوئی کہ اللہ کے علم کی کوئی انتہا نہیں ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔