يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
لوگ آپ سے حرمت والے مہینے (305) کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں قتال کرنا کیسا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ اس میں قتال کرنا بڑا گناہ ہے، اور اللہ کی راہ سے (لوگوں کو) روکنا ہے، اور اس کا انکار کرنا ہے، اور مسجد حرام سے روکنا، اور مسجد حرام والوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے، اور (اہل توحید کو ان کے دین و عقیدہ کے بارے میں) آزمائش میں ڈالنا قتل سے بڑا گناہ ہے، اور (اے مسلمانو !) اہل کفر تم سے جنگ کرتے رہیں گے، حتی کہ اگر ان کی استطاعت میں ہو تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کردیں گے، اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے گا، اور پھر حالت کفر میں ہی مرجائے گا، تو اس کے اعمال دنیا وآخرت میں ضائع ہوجائیں گے، اور وہ لوگ جہنمی ہوں گے، اسی میں ہمیشہ رہیں گے
305: اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک فوجی دستہ عبداللہ بن جحش کی قیادت میں نخلہ کی طرف روانہ کیا، راستہ میں قریش کے ایک قافلہ سے مڈبھیڑ ہوگئی جو طائف کی طرف سے آرہا تھا، ایک مسلمان تیر انداز نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا، چونکہ رجب کا مہینہ تھا جو حرمت والا مہینہ ہوتا ہے، اس لیے کفار قریش نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو عار دلایا کہ تم لوگ تو حرمت والے مہینوں کا بھی پاس نہیں رکھتے، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہا کہ آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ جس بات کا تم عار دلاتے ہو اگرچہ وہ بڑا گناہ ہے، لیکن اللہ کے دین سے روکنا، اللہ کا انکار کرنا، مسجد حرام سے روکنا، نبی کریم اور صحابہ کرام کو ان کے گھروں سے نکالنا، یہ جرم اللہ کے نزدیک بڑے ہیں، اور لوگوں کو ان کے دین اسلام پر چلنے کی وجہ سے آزمائشوں میں ڈالنا تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے، اور یہ تمام عیوب تمہارے اندر پائے جاتے ہیں، لیکن تمہیں اپنے عیوب نظر نہیں آتے، اور مسلمانوں کو ان کی ایک غلطی کا عار دلاتے ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کفار جو آپ سے جنگ کرتے ہیں، ان کا مقصد آپ کو اور مسلمانوں کو دین اسلام سے نکال دینا ہے، جو وہ نہیں کرسکیں گے، پھر اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی دین اسلام سے مرتد ہوجائے گا، اس کے سارے اعمال دنیا و آخرت میں ضائع ہوجائیں گے اور اس کا ٹھکانا ہمیشہ کے لیے جہنم ہوگا۔ فائدہ : جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں (شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ، رجب) میں قتال جائز ہے۔ ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے کہ ان مہینوں میں قتال کی حرمت منسوخ ہوچکی ہے، اس لیے کہ اس کے بعد نازل ہونے والی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں حکم دیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں انہیں قتل کرو، اور کسی مہینہ کی استثناء نہیں کی۔