سورة البقرة - آیت 216

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تم پر جہاد (304) فرض کردیا گیا ہے، اگرچہ وہ تم کو ناپسند ہے، اور بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے لیے اچھی ہے، اور بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہے، اور اللہ جانتا ہے، اور تم لوگ نہیں جانتے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

304: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور مسلمانوں پر جہاد فی سبیل اللہ کو فرض قرار دیا ہے۔ مدنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں مسلمان ہر اعتبار سے کمزور تھے، ان کی تعداد کم تھی اور ان کے پاس سامانِ جنگ بھی نہیں تھا، اس لیے اللہ نے انہیں عفو و درگذر اور صبر کرنے کا حکم دیا، جنگ بدر کے قبل جب ان کی تعداد زیادہ ہوگئی اور پہلے کے مقابلہ میں قوی ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کا حکم دے دیا، اور کہا کہ اگرچہ اس کام میں جان کی بازی لگانی پڑتی ہے اور مختلف قسم کے خطرات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اللہ جانتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ میں مؤمنوں کے لیے خیر ہی خیر ہے، دشمنوں کے اوپر غلبہ اور مال غنیمت کے حصول کے علاوہ آخرت کی کامیابی اور جہنم سے نجات اس کا انجام ہوتا ہے، اسی طرح انسان بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ظاہری راحت کی خاطر جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دینے کا انجام دنیا میں ذلت و رسوائی، دشمنوں کا بلاد اسلامیہ پر قابض ہوجانا، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب اور جہنم کے عذاب کا سامنا ہوگا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ تمہاری بھلائی کس کام میں ہے صرف اللہ جانتا ہے، تم کچھ بھی نہیں جانتے، اس لیے اللہ کا جو حکم ہو اسے بجا لانے میں ہی خیر ہے۔ چاہے اس میں مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے، اس لیے کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے مہربان ہے، وہ انہی باتوں کا حکم دیتا ہے جن کے بجا لانے میں بندوں کی بھلائی ہے۔