وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ وَيَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا
اور جب لوگوں (٣٢) کے پاس ہدایت آگئی تو انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے مغفرت مانگنے سے کسی بات نے نہیں روکا ہے، مگر یہ انتظار کہ ان کے ساتھ بھی گزشتہ قوموں جیسا معاملہ ہو یا قیامت کے دن کا عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے۔
(٣٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور ہر زمانے کے کافروں کا حال بیان کیا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ہی تمرد کی راہ اختیار کی اور ہزار دلائل و براہین کے باوجود حق کو جھٹلانے کی کوشش کی اور سب نے یہی مطالبہ کیا کہ جس عذاب کی انہیں دھمکی دی جارہی ہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی کفار ایمان و استغفار پر اس وقت آمادہ ہوتے ہیں جب دنیا میں عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں، یا جب آخرت میں جہنم کو دیکھ لیں گے اور دونوں ہی حالتوں میں ان کا ایمان و استغفار کسی کام کا نہیں۔