وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
اور جو لوگ (١٧) صبح و شام اپنے رب کو اس کی رضا جوئی کے لیے پکارتے رہتے ہیں ان کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھیئے اور دنیاوی زندگی زندگی کی زیب و زینت کی خواہش میں آپ کی آنکھیں ان سے پھر نہ جائیں اور آپ اس آدمی کی پیروی نہ کیجیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کی اتباع کرتا ہے، اور جس کی نافرمانی کا معاملہ حد سے تجاوز کرگیا ہے۔
(17) ابن جریر نے روایت کی ہے کہ اہل جاہ و مرتبہ کفار مکہ نے نبی کریم (ﷺ) سے مطابلہ کیا کہ وہ غریب و نادار مسلمانوں کو اپنی مجلس سے نکال دیں، تاکہ وہ لوگ آپ کی مجلس میں شریک ہوں اور آپ کی باتیں سنیں، تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو حکم دیا گیا کہ ایسا نہ کریں، بلکہ غریب مسلمانوں کا خیال کریں اور انہیں اپنی مجلس سے نہ نکالیں، جن کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا کی خاطر صبح و شام نمازیں پڑھتے ہیں اور اسے یاد کرتے رہتے ہیں اور آپ ان غریب مسلمانوں کو اس لیے نظر انداز نہ کیجیئے تاکہ مکہ کے مالداروں اور سرداروں کے ان کا دل رکھنے کے لیے بیٹھ سکیں، اور آپ اس شخص کی پیروی نہ کیجیے جس کے دل پر ہم نے مہر لگا دی ہے جس کے نتیجہ میں وہ ہماری یاد سے غافل ہوگیا ہے، اور اپنی خواہش نفس کا بندہ ہوگیا ہے اور ہلاکت و بربادی اس کی قسمت بن گئی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ (وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ) امیہ بن خلف جحمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو غریب مسلمانوں کو نبی کریم (ﷺ) کی مجلس سے نکالنے کی تحریک میں پیش پیش تھا، امام مسلم نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ ہم چھ آدمی نبی کریم (ﷺ) کے پاس بیٹھے تھے، تو مشرکین نے آپ سے کہا کہ تم انہیں اپنی مجلس سے نکال دو تاکہ یہ ہمارے خلاف جری نہ ہوجائیں۔ سعد کہتے ہیں کہ وہ چھ آدمی ہیں، ابن مسعود، قبیلہ ہذیل کا ایک آدمی، بلال اوردو دوسرے آدمی تھے جن کے نام میں بھول گیا ہوں۔ چنانچہ آپ کے دل میں یہ بات آگئی، تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی آیت (٥٢) نازل فرمائی، کہ جو لوگ اپنے رب کا پکارتے ہیں انہیں آپ نہ بھگائیں۔