وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
اور ہم نے اسی طرح انہیں (ایک بار) اٹھایا (١٢) تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں ان میں سے ایک نے پوچھا کہ تم سب (اس حال میں) کتنے دن رہے ہو؟ دوسروں نے جواب دیا کہ ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہیں، پھر کہا کہ تمہارا رب زیادہ جانتا ہے کہ تم کتنے دن رہے، تم اپنا ایک آدمی چانید کے اس سکہ کے ساتھ شہر بھیجو، پس وہ دیکھے کہ وہاں سب سے پاکیزہ کھانا کون سا ہے، تو اس میں سے تمہارے لیے کچھ کھانا (خرید کر) لے آئے، اور خاموشی کے ساتھ کام کرلے، اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔
(12) تین سو نو سال تک سوئے رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں جب بیدار کیا تو ان کے اجسام اور تمام اعضا و جوارح حسب سابق بالکل صحیح و سالم تھے، ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، تاکہ وہ اور انہیں دیکھنے والے دوسرے لوگ اس بات کا ادراک کرسکیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو مارنے اور دوبارہ زندہ کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے اور تاکہ وہ صالحین ایک دوسرے سے اپنی نیند کی مدت کے بارے میں سوال کریں اور اللہ نے ان کے ساتھ جیسا اچھا معاملہ کیا اور جس طرح طویل مدت تک ان کی حفاظت کی ان سب پر غور کر کے عبرت حاصل کریں، اللہ کی عظیم قدرت پر ان کا ایمان بڑھ جائے اور اس کا شکر بجا لائیں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ بھائیو ! ہم لوگ کتنی دیرسوئے ہیں؟ تو ان میں سے بعض نے جواب دیا کہ ہم لوگ یا تو ایک دن سوئے رہے ہیں یا دن کا کچھ حصہ۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ غالبا وہ لوگ غار میں صبح کے وقت داخل ہوئے تھے اور جب جاگے تو دن کا آخری پہر تھا، اسی لیے انہوں نے کہا کہ شاید ہم لوگ دن کا کچھ حصہ سوئے رہے ہیں، انتہی۔ لیکن بعض دوسرے نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ ہم کتنی دیر اس حال میں رہے ہیں۔ پھر انہوں نے روئے سخن دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے ایک آدمی ہمارے پاس موجود چاندی کا سکہ لے کر شہر جائے اور عمدہ اور حلال کھانا خرید کر لائے، اور خوب محتاط رہے تاکہ اپنی کسی حرکت سے لوگوں کو اپنی حقیقت کا پتہ نہ دیدے،