وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
اور آپ انہیں بیدار (١١) سمجھتے حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے اور ہم انہیں دائیں اور بائیں پلٹتے رہتے تھے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے ہوئے تھا، اگر آپ ان کی طرف جھانک لیتے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑتے، اور ان کی کیفیت دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے۔
(11) اس آیت کریمہ میں ان صالحین کی ایک اور عجیب و غریب کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند طاری کردی تھی، لیکن ان کی آنکھیں اس طرح کھلی تھیں کہ ا گر کوئی انہیں دیکھتا تو انہیں بیدار سمجھتا، اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے اجسام دائیں اور بائیں الٹتے پلٹتے رہتے تھے تاکہ زمین انہیں نقصان نہ پہنچائے، اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے بازو پھیلائے بیٹھا تھا، ان کے ان تمام احوال و کوائف سے ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگئی تھی کہ اگر کوئی قوی آدمی بھی انہیں دیکھتا تو اس پر رعب طاری ہوجاتا اور مارے ڈر کے بھاگ پڑتا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اللہ نے ان کی ایسی کیفیت اس لیے بنادی تھی تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جائے اور نہ کوئی انہیں چھوئے، یہاں تک کہ اللہ کے علم کے مطابق ان کی نیند کی مدت پوری ہوجائے۔