وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا
اور جب تم نے اپنی قوم سے اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کشی (٨) اختیار کرلی ہے تو غار میں پناہ لے لو، تمہارا رب تمہیں اپنی رحمت میں لے لے گا، اور تمہارے لیے تمہارے معاملے میں سہولت بہم پہنچائے گا۔
(9) بادشاہ (دقیانوس) نے ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا، ان سے زینت کے لباس اترا والیے اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ بتوں کے بارے میں وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کریں، انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے وہاں سے بھاگ نکلے، اور آپس میں مشورہ کیا کہ چونکہ ہم لوگوں نے بت پرستوں اور ان کے جھوٹے معبودوں سے اعلان برات کردیا ہے اور دین و ایمان کی حفاظت کے لیے اپنا وطن چھوڑ دیا ہے اس لیے ہمارے لیے مناسب یہ ہے کہ ہم غار میں چھپ جائیں، تاکہ ہم پکڑ نہ لیے جائیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارا رب ہمیں ضائع نہیں کرے گا، وہ اپنی رحمتوں کے سائے تلے ہمیں ڈھانک لے گا، ہمارے کھانے پینے کا انتظام کرے گا اور دشمنوں سے نجات دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے دشمن ہزار کوشش کے باوجود ان کا سراغ نہ لگا سکے، اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لمبی نیند طاری کردی، اور اللہ نے ان کے لیے جس غار کو چنا تھا وہ عجیب و غریب غار تھا جس کی تفصیل آئندہ آیت میں آرہی ہے۔ بعض لوگوں نے اصحاب کہف کے غار میں روپوش ہونے سے عبادت کے لیے عزلت نشینی پر استدلال کیا ہے، جو صحیح نہیں ہے، اس سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ جب آدمی کے دین و ایمان کو کسی ظالم کی جانب سے خطرہ لاحق ہوجائے تو اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوجانا چاہیے تاکہ وہاں سکون کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکے، اور اس کا دین خطرہ سے محفوظ ہوجائے۔ امام غزالی نے بھی ایسے لوگوں کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اصحاب کہف ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے، بلکہ کافروں کے ظلم و استبداد سے فرار کی راہ اختیار کی تھی، حافظ ابن کثیر نے بھی اس رائے کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عزلت اور لوگوں سے کنارہ کشی صرف اسی صورت میں جائز ہوگی کہ آدمی کے دین و ایمان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔