سورة الإسراء - آیت 110

قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن (٧٠) کے نام سے پکارو، جس نام سے چاہو اسے پکارو، تمام بہترین نام اسی کے لیے ہیں اور آپ اپنی نماز نہ زیادی اونچی آواز سے پڑھیے اور نہ ہی بالکل پست آواز سے، بلکہ ان دونوں کے درمیان کا طریقہ اختیار کیجیے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(70) ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے راویت کیا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے ایک دن مکہ میں نماز پڑھی تو دعا میں یا اللہ یا رحمان کہا، کافروں نے سن کر کہا کہ اس بے دین کو دیکھو، ہمیں تو دو معبودوں کو پکارنے سے روکتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اللہ کے بہت سے اچھے نام ہیں اسے ان ناموں میں سے جس نام سے چاہو پکارو۔ بخاری و مسلم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ (ﷺ) مکہ میں چھپ کر عبادت کرتے تھے، اور جب صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے، مشرکین سن کر قرآن اور اس کے نازل کرنے والے کو گالی دیتے، آپ کو حکم دیا گیا کہ اپنی آواز زیادہ اونچی نہ کریں تاکہ مشرکین نہ سن لیں اور نہ اتنی پست آواز سے تلاوت کریں کہ صحابہ سن نہ سکیں، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں سنت یہ قرار پایا کہ فجر، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کی جائے۔